Qazi Maulana Harun Maharashtra

Qazi Maulana Harun Maharashtra Qaz for marriage and marriage certificate under the Maharshatara State Board of wakf Aurangabad

23/07/2024

*⚖️سوال وجواب⚖️*

🖋️مسئلہ نمبر 1898🖋️

(کتاب القضاء، دارالقضاء کی آن لائن بعض کاروائیاں )

*آن لائن دعوی، رفع الزام، گواہی و فریقین کی شناخت کا حکم*

سوال: گزشتہ دو سالوں سے لاک ڈاؤن کی جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اس نے بعض بالکل الگ نوعیت کے مسائل پیدا کر دیئے ہیں، حکومت نے جسمانی فاصلہ کو ضروری قرار دے دیا ہے، جہاں تعلیمی اداروں میں مشافہۃ تعلیم کو منع کر دیا گیا ہے، اور آن لائن تعلیم ہورہی ہے، عدالتیں بھی آن لائن مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں ، اور آن لائن ہی فیصلے بھی سنارہی ہیں ، اس پس منظر میں درج ذیل امور کے جوابات مطلوب ہیں:

(١) دعوی کے لئے ضروری ہے کہ مدعی ، قاضی یا اس کے نائب کی مجلس میں اپنا مدعا پیش کرے، اگر وہ کہیں اور اپنی شکایت رکھے تو یہ دعوی نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں اگر دار القضاء کے آفس میں قاضی کو یا فریقین کو آنے سے منع کر دیا گیا ہو تو کیا مدعی آن لائن اپنا دعوی پیش کر سکتا ہے، اور اسکو مجلس قضاء میں حاضری تصور کیا جائے گا؟

(۲) یہی سوال رفع الزام سے متعلق بھی ہے کہ کیا مدعی علیہ آن لائن رفع الزام کر سکتا ہے؟

(٣) نیز یہی سوال گواہوں سے متعلق بھی ہے، جیسا کہ معلوم ہے کہ شاہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قاضی کی مجلس میں حاضر ہو کر اپنا بیان دے، تو کیا اس کا آن لائن بیان دینا کافی ہو جائے گا؟

(٤) یہ بھی ضروری ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ اور گواہان کی بہتر طور پر شناخت ہو؛ اس لئے فقہاء نے مدعیہ، مدعی علیہا اور خاتون گواہان کا چہرہ بھی بے دیکھنے کی اجازت دی ہے؛ تاکہ ان کو اچھی طرح پہچان لیا جائے ، تو کیا ویڈیو کال پر مقدمہ کے فریقوں اور گواہوں کو دیکھ لینا کافی ہوگا؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

قضا کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ لوگوں کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے(1) قضا کی اصل روح اور اس کا مقصد قیام عدل، احیاء حقوق، رفع نزاع و دفع ظلم ہے(2) اسلام میں نظام قضا کی بڑی اہمیت ہے، اس سے مظلوموں کی داد رسی ہوتی ور معاشرے میں امن کا ماحول قائم ہوتا ہے، اسی لیے تمام انبیاء کرام کو یہ مقام عطا فرمایا گیا چنانچہ وہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی عوام کے قاضی بھی ہوتے تھے(3)۔

مجلس قضا یا مجلس قاضی سے مراد وہ جگہ ہوتی ہے جہاں قاضی لوگوں کے معاملات حل کرنے کے لیے بیٹھتا ہوں، چنانچہ جس جگہ بھی فیصلے کے لیے قاضی بیٹھ جائے وہی مجلس قضا بن جائے گی، اس کی کوئی حد بندی نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مقام پر ہی بیٹھے، البتہ جہاں لوگ بسہولت آسکیں وہ جگہ زیادہ مناسب ہے، اسی لیے بعض نے جامع مسجد کو مجلس قاضی کے لیے زیادہ موزوں قرار دیا ہے کہ وہاں لوگوں کو آنے میں اسانی ہوتی ہے، لیکن قاضی اگر اپنے گھر میں بھی بیٹھ کر فیصلہ کرتا ہے تو وہ فیصلہ نافذ ہو جائے گا(4)۔

اسی طرح دعوی کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ حاکم کے سامنے کوئی شخص اپنے حق کا دوسرے شخص سے مطالبہ کرے، چنانچہ دعوی اور رفع الزام دونوں کے لیے فقہائے کرام نے مجلس قضاء کی شرط لگائی ہے(5)۔

اس لئے صورت مسئولہ میں اصل یہ ہے کہ مدعی علیہ دعوی اور شہادت کی سماعت نیز فیصلے کے وقت موجود ہو، اگر مدعی علیہ کو دارالقضاء کی طرف سے عرضی دعوی کے نقل موصول ہو جائے اور اسے طلبی کی نوٹس مل جائے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ حاضر ہو کر دعوی کا اقرار کرے یا انکار، اور بصورت انکار رفع الزام کرے، اگر مدعی علیہ مقدمہ کی اطلاع ملنے کے باوجود حاضری سے گریز کرے تو اسے رفع الزام سے عاجز تصور کرتے ہوئے قاضی مقدمے کی سماعت کرے اور فیصلہ بھی، اور قاضی ایسے مدعی علیہ کی طرف سے جسے حاضر کرنا ممکن نہ ہو کسی ایسے شخص کو اس کی طرف سے اظہار حق کے لیے طلب کرے گا جس کے بارے میں امید ہو کہ وہ مدعی علیہ کے مفادات کی حفاظت کرے گا اسے اصطلاح فقہاء میں وکیل مسخر کہا جاتا ہے(6)۔

مذکورہ سوالات کا تعلق دراصل قضاء علی الغائب سے ہے اور اس کے سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ احناف کے یہاں قضاء الغائب جائز نہیں ہے، البتہ دوسرے فقہاء نے قضاء علی الغائب کو درست اور جائز قرار دیا ہے، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں بھی قضاء علی الغائب جائز ہے، ان کے ہاں مدعی کی حاضری دعوی، شہادت اور فیصلے کے لیے ضروری نہیں ہے(7)

مذکورہ سوال کے سلسلے میں فقہاء کے کلام سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اس باب میں بنیادی امر صاحب حق تک حق کو پہنچانا، مظلوم سے ظلم کو دور کرنا اور اس کے حق کو ہلاکت سے بچانا ہے(8) اگر کہیں حالات میں اس قدر تبدیلی ہو جائے کہ ایک اصول کی پابندی میں حرج اور تعطیل حکم لازم آتا ہو تو اس اصول کو ترک کر دیا جائے گا، اس لیے کہ جب احکام ہی معطل ہو جائیں اور رفع ظلم ہی نہ ہو سکے تو قاضی کے قضا کا کوئی خاص فائدہ ظاہر نہیں ہوگا؛ اس لیے آن لائن کاروائی کے جواز کی طرف اشارہ ضرور ملتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دین میں حرج اور تنگی کو دور کیا گیا ہے، مشہور اصول ہے الحرج مدفوع، اس سلسلے میں فقہاء نے انتہائی احتیاط لیکن پوری فراخ دلی کے ساتھ حالات کا جائزہ لے کر لوگوں کو حرج سے بچایا ہے، اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض دفعہ شاہد اداء شہادت سے عاجز ہوتا ہے اور اس صورت میں التوائے حقوق کا خطرہ ہوتا ہے،اس لیے فقہا نے ان خرابیوں کے باوجود شہادۃ علی الشہادہ کو جائز قرار دیا ہے(9)۔

اس لیے مصالح کے پیش نظر اور حکمت قضا کو بروئے کار لاتے ہوئے جدید مروجہ طریقے جس سے حکومتی سطح پر بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے استعمال کرنا درست ہوگا اور جب کرونا جیسے حالات اور لاک ڈاؤن جیسا ماحول پیدا ہو اور پورا ملک مقفل اور معطل ہو جائے اور کوئی ایسی صورت نہ ہو کہ یہ کاروائی قاضی کے سامنے یا اس کے نائب کے سامنے انجام پا سکے تو پھر آن لائن کاروائی کی گنجائش ہوگی، البتہ ضروری ہوگا کہ تمام ضروری احتیاط اور اہم تدابیر اختیار کر لی جائیں، تاکہ اشتباہ و تلبیس کا اندیشہ کم سے کم ہوجائے، ان احتیاطی تدابیر میں مذکورہ ذیل چیزیں شامل ہیں:

(١) آن لائن دعوی بذریعہ ویڈیو کالنگ ہو، آڈیو کالنگ نہ ہو؛ کیونکہ اس میں نسبتا زیادہ شبہ کی گنجائش ہوتی ہے۔

(٢) دوران سماعت اور دوران دعوی قاضی اور فریقین کے کیمرے آن ہوں، تاکہ حرکات و سکنات سے تمام لوگ پوری طرح واقف رہیں۔

(٣) پوری کاروائی ریکارڈ کی جائے۔

(٤) حسب معمول فریقین کی باتیں قلم بند بھی کی جائیں۔

(٥) فریقین اور گواہوں کی تحقیق و تائید کے لیے ان کی آئی ڈی یعنی شناختی کارڈ کی تفتیش بھی کی جائے تاکہ دھوکہ اور فریب سے بچا جا سکے۔

(٦) آن لائن بھیجی ہوئی اور موصول تحریرات کی پرنٹ لے کر فائل میں شامل کی جائیں۔

(٧) یونیکوڈ یعنی براہ راست میل واٹس ایپ ٹیلی گرام وغیرہ پر الفاظ نہ لکھے جائیں، کیونکہ یہ کام کوئی دوسرا آدمی بھی اس کے اکاؤنٹ اور اس کے نام پر کر سکتا ہے، نیز ایسی صورت میں دستخط نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا باتوں کی رعایت کرتے ہوئے نہایت سخت حالات میں کہ جب لوگوں کا آنا جانا بالکل مشکل یا ناممکن ہو تو آن لائن مدعی کا اپنا دعوی پیش کرنا اور مدعی علیہ کا آن لائن رفع الزام کرنا نیز گواہوں کا آن لائن بیان دینا درست ہوگا، اسی طرح ویڈیو کال پر مقدمے کے فریقین اور گواہوں کو دیکھ لینا بھی کافی ہو گا، علامہ شامی کی بعض عبارات سے اس پر روشنی پڑتی ہے ۔ فقط والسلام

📚والدليل على ما قلنا📚

(1)” القضاء هو الحكم بين الناس بالحق ( بدائع الصنائع ۸۳)

” واللہ یقضی بالحق “ (سورۃ غافر : ۲۰)

"إن ربك يقضى بينهم بحكمة، وهو العزيز العليم“ (سوره نمل: ۷۸) ۔

(2) وأما حكمته فرفع التهارج ورد النوائب وقمع الظالم ونصر المظلوم وقطع الخصومات والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر “ (معين الحکام ١٧)

(3) ” وأن احكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم (سوره مائده: ۴۹) ۔

(4) قال الخصاف فى أدب القاضى، قال أبو حنيفة : وينبغي للقاضي أن يجلس للحكم في المسجد الجامع وبين المغني، فقال لأنه أشهر المجالس ومعناه أن في المصر الغرباء وأهل البلدة، ينبغى أن يختار للجلوس موضعا هو أشهر المواضع، حتى لا يخفى على أحد مجلسه والمسجد الجامع في كل موضع أشهر المواضع وإن جلس في مسجد حيه فلا بأس به، هكذا روى عن بعض السلف، أنهم يجلسون في مسجد حيهم، وكذلك إن جلس في بيته لا بأس به (المحيط البرہانی ۱۹/۸، الدر المختار علی ہامش رد المحتار ۳۷۲/۵)۔

(5) قول يقصد به الإنسان إيجاب حق على غيره، وفي عرف الفقهاء : مطالبة حق فى مجلس من له الخلاص عند ثبوته ( فتح القدير ٧/٦ ، کتاب الدعوى ) ۔

” الدعوى إضافة الشئى إلى نفسه وضعا، وإضافة الشئى إلى نفسه مع مساس حاجته إليهآ شرعاً ( معين الحكام / ۵۳) ۔

"الدعوى الصحيحة أن يدعى شيئاً معلوماً على خصم حاضر في مجلس الحكم دعوى تلزم الخصم أمر أ من الأمور ( معين الحكام / ۱۶۲) ۔

: ” إِنَّمَا كَانَ قَوْلُ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُوْلُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ (النساء: (٥) ۔

(6) " ومنها حضرة الخصم فلا تسمع الدعوى ولا البيئة إلا على حضرة الخصم فلا تسمع الدعوى ولا البيئة إلا على خصم حاضر “ (بدائع الصنائع ۳۱۲/۸) ۔

(7) " وهذا عندنا و عند الشافعي حضرة المدعى عليه ليست بشرط لسماع الدعوى و البيئة و القضاء فيجوز القضاء على الغائب عنده وعندنا لا يجوز ( بدائع الصنائع ۳۱۲/۸)

و شرطها أى شرط جواز الدعوى مجلس القضاء و حضور خصم فلا يقضى على الغائب (در مختار)

فلا يقضى على الغائب أى بالبينة سواء كان غائبا وقت الشهادة أو بعدها و بعد التزكية وسواء كان غائباً عن المجلس أو عن البلد ( قرة عيون الأخبار تكملة رد المحتار ۳۷۸/۳) ۔

(8) " وأما حكمته فرفع التهارج ورد النوائب وقمع الظالم ونصر المظلوم وقطع الخصومات والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر “ (معين الحکام ١٧)

(9) أما التعريف فهو إخبار صدق لإثبات حق بلفظ الشهادة فى مجلس القضاء هكذا في فتح القدیر“ (فتاوی ہند یہ ۴۵۰/۳) ۔

الشهادة (هي) لغة: خبر قاطع، وشرعاً ( إخبار صدق لإثبات حق) فتح ( بلفظ الشهادة فى مجلس القاضی) (رد المحتار، کتاب الشهادات ۱۷۲/۸)

الشهادة : وهى فى اللغة عبارة عن الإخبار بصحة الشئى عن مشاهدة وعيان ولهذا قالوا : إنها مشقة من المشاهدة التي تنبئي عن المعاينة لأن السبب المطلق للأداء المعاينة ، وقيل : هي مشتقة من الشهود بمعنى الحضور، لأن الشاهد يحضر مجلس القضاء للأداء فسمى الحاضر شاهداً وأداءه شهادة، وهي في الشريعة عبارة عن إخبار بصدق مشروط فيه مجلس القضاء و لفظ الشهادة ( كفاية تحت فتح القدیر، کتاب الشهادات ۳۳۹/۷)ہ

الشهادة على الشهادة جائزة في كل حق لا يسقط بالشبهة وهذا استحسان بشرط الحاجة إليها إذ شاهد الأصل قد يعجز عن أدا شهادة لبعض العوارض فلو لم يجز الشهادة على الشهادة أدى إلى التواء الحقوق (ہدایہ آخرین: ۱۵۴)

(10) فالظاهر عندى : أن يتأمل في الوقائع ، ويحتاط ، ويلاحظ الحرج، والضرورات فيفتى بحسبها جوازا أو فسادًا ، مثلا لو طلق امرأته عند العدل فغاب عن البلد و لا يعرف مكانه أو يعرف ولكن يعجز عن إحضاره أو أن تسافر إليه هى، أو وكيلها لبعده أو لمانع آخر وكذا المديون لوغاب وله نقد فى البلد أو نحو ذلك ، ففى مثل هذا لوبرهن على الغائب غلب على ظن القاضي أنه حق لا تزوير ولا حيلة فيه، فينبغي أن يحكم عليه وله، وكذا للمفتى أن يفتى بجوازه دفعًا للحرج والضرورات، وصيانة للحقوق عن الضياع، مع أنه مجتهد فيه ذهب إليه الأئمة الثلاثة وفيه روايتان عن أصحابنا (شامی: کتاب القضاء ، ۱۰۷/۸، ط: زکریا)

*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 24/11/1443
رابطہ 9029189288

*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

23/07/2024

*کم سنی کی شادی اور اسلام*

محمد رضی الاسلام ندوی

بھارت میں کم سنی کی شادی پر قانوناً پابندی عائد ہے - اس کی روٗ سے اکیس(21) برس سے کم عمر میں لڑکے کی اور اٹھارہ(18) برس سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کرنا جرم ہے ۔ اب لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر بھی اکیس برس کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے ۔ اس قانون کا سہارا لے کر ملک کی شمال مشرقی ریاست آسام میں گزشتہ برس پولیس نے ایسے ہزاروں مردوں اور ان کے رشتے داروں کو گرفتار کرلیا تھا جنہوں نے گزشتہ برسوں میں اٹھارہ (18) برس سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کی تھی ۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں زیادہ تر مسلمان تھے ۔ اس سے یہ تأثرعام کیا گیا کہ کم سنی کی شادی کا رجحان دیگر اہلِ مذاہب کے مقابلے میں مسلمانوں میں زیادہ ہے ، حالاں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے ۔ اعداد و شمار اس کی تائید نہیں کرتے ۔ ملک کی وزارتِ صحت نےNational Family and Health Survey 2019-2021 جاری کیا تھا ، جس میں تمام ریاستوں کے الگ الگ اعداد وشمار بھی پیش کیے گئے تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی کی شادی کے رجحان کا بنیادی سبب مذہب نہیں ، بلکہ غربت اور تعلیم کی کمی ہے ۔ اگر مذہب والا مفروضہ درست ہوتا تو جموں و کشمیر اور لکش دیپ میں ، جہاں مسلمان غالب اکثریت میں ہیں ، لڑکوں اور لڑکیوں میں کم عمری میں شادی کا تناسب زیادہ ہوتا ، حالاں کہ وہاں یہ تناسب دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔

شادی کی کم از کم عمر بڑھانے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے پختگی آئے ، خاص طور سے لڑکیاں جنسی تعلق کے عواقب کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں ، ان کے جنسی اعضاء کم عمری میں مباشرت اورحمل کا بار اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہوتے ، اس لیے شادی کی کم از کم عمر بڑھانا ضروری ہے ۔ دوسری طرف بلوغت کے بعد بغیر شادی کے جنسی تعلق میں کوئی حرج نہیں سمجھا گیا اور قانونی طور پر اس کی اجازت دی گئی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم عمری میں بلوغت کے بعد بغیر شادی کے جنسی تعلق تو قانونی اور جائز ہے ، لیکن اگر شادی کرکے جنسی تعلق قائم کیاجائے تو وہ غیر قانونی ہے ۔

جنس(Sex) کا جذبہ ہر انسان میں موجود ہے ۔ بلوغت کے ساتھ ہارمونس (Hormones) کے نتیجے میں ہر نوجوان (لڑکا یا لڑکی) صنفِ مخالف کی طرف کشش محسوس کرتا ہے ۔ جنسی جذبہ اتنا شدید ہوتاہے کہ اگر بروقت یا جلد اس کی تسکین کا سامان مہیّا نہ کیا جائے تو جسم پر اس کے بُرے اثرات پڑتے ہیں اور آدمی جائز ، ناجائز کی پروا کیے بغیر ہر ممکن طریقے سے اس کی تسکین کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کی مثال اس بہتے دریا کی سی ہے جس پر بند باندھنا ممکن نہیں ہوتا ، وہ کہیں نہ کہیں سے اپناراستہ نکال لیتا ہے ۔

شادی کی کم از کم عمر میں اضافہ کرکے جنسی جذبہ کو قابو میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے یہ تو ہوسکتا ہے کہ لوگ سزا کے ڈر سے متعین حد سے پہلے شادی نہ کریں ، لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ بغیر شادی کے جنسی تعلقات میں اضافہ ہوگا ۔ سماج میں بے حیائی ، آوارگی اور بدکاری عام ہوگی اور اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا اور اس کا بھی قوی امکان ہے کہ رسوم و روایات کی جڑیں گہرائی میں پیوست ہونے کی وجہ سے انسانوں کا بڑا طبقہ قانون کو تسلیم نہ کرے اور اسے توڑنے میں اسے کوئی ڈر نہ ہو ۔

اسلام انسانوں کی فطرت میں ودیعت شدہ جذبۂ جنس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اس معاملے میں اس کا رویّہ اعتدال کا ہے ۔ وہ نہ تو کھلی چھوٹ دیتا ہے کہ لوگ جس طرح چاہیں اپنے جنسی جذبہ کی تسکین کرلیں اور نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے ۔ اسلام نے جذبۂ جنس کی تسکین کے لیے صرف نکاح کو لازم کیا ہے ۔ اس کے نزدیک بغیر نکاح کے جنسی تعلق بہت بڑا جرم ہے ، جس کا ارتکاب کرنے والا عبرت ناک سزا کا مستحق ہے ۔

اسلام میں نکاح کے متعدد مقاصد بیان کیے گئے ہیں : ایک مقصد نسلِ انسانی کا تسلسل ہے ۔ دوسرا مقصد ازدواجی تعلق کو الفت ومحبت پر استوار کرنا ہے ، تاکہ زوجین مل جل کر اولاد کی پرورش کریں اور خوشی و مسرت اور اطمینان وسکون کے ساتھ زندگی گزاریں ۔ تیسرا مقصد سماج سے بے حیائی اور بدکاری کا خاتمہ کرنا ہے ۔ اسی لیے اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیاہے کہ نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں اور نکاح کے بغیر جنسی تعلقات نہ رکھیں ۔

اسلام نے نکاح کو بہت آسان بنایاہے ۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے بالغ ہونے کے بعد جلد ان کے نکاح کی فکر کی جائے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے :
”اے نوجوانوں کے گروہ ! تم میں سے جو نکاح کر سکتا ہو اسے ضرور کرلینا چاہیے ۔ اس لیے کہ یہ نگاہ کو پست رکھنے اور شرم گاہ کو محفوظ رکھنے کا زیادہ مؤثر ذریعہ ہے ۔“ (بخاری و مسلم)

اللہ کے رسول ﷺ نے لڑکیوں کے سرپرستوں کو بھی تاکید کی ہے کہ ان کے نکاح میں تاخیر نہ کریں ، ورنہ اس سے سماج میں فساد ، بے حیائی اور آوارگی پھیلنے کا قوی اندیشہ ہے ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے :
”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغامِ نکاح دے جس کی دین داری اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے رشتہ کردو ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو روئے زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا ۔“ (ترمذی)

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر لڑکا یا لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اس کا نکاح کرنے میں تاخیر کی گئی ، جس کی بنا پر اس سے گناہ کا صدور ہوگیا تو اس کا وبال اس کے باپ/ سرپرست پر ہوگا۔

نکاح کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد نسل کو آگے بڑھانا ہے اور یہ بلوغت کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے ، اس لیے اسلام نے بلوغت کے بعد نکاح کو پسندیدہ قرار دیا ہے ، لیکن اس نے مخصوص حالات میں بلوغت سے قبل بھی نکاح کی گنجائش رکھی ہے ۔ مثال کے طور پر لڑکی کے باپ کا انتقال ہوجائے اور کوئی اس کی کفالت کرنے والا نہ ہو ۔ اس طرح کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ کے نکاح کو عموماً کم عمر میں نکاح کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ نبی ﷺ نے جب ان سے نکاح کیا اس وقت ان کی عمر چھ (6) برس تھی اور رخصتی کے وقت وہ نو (9) برس کی تھیں ۔ یہ موضوع کئی پہلوؤں سے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے :

پہلی بات یہ کہ اسلام نے نکاح کے معاملے میں عمر (Age) کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے ، بلکہ وہ خوش گوار ازدواجی تعلقات پر زور دیتا ہے ۔ لڑکے اور لڑکی کی جو بھی عمر ہو ، وہ اسے گوارا کرتا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہؓ کے مابین ازدواجی تعلقات بہت خوش گوار اور مثالی تھے ۔

دوسری بات یہ کہ بعض رسمیں اور روایتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کسی سماج میں برا سمجھا جاتا ہے تو دوسرے سماج میں اچھا سمجھ کر ان پر عمل کیا جاتا ہے ۔ یہی معاملہ کم عمر کی شادی کا ہے ۔ دورِ جاہلیت(Pre Islamic age) میں اس کا معمول تو نہیں تھا ، لیکن اسے برا بھی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ چنانچہ تاریخی روایات میں عہدِ جاہلیت(Pre Islamic age) اور عہدِ نبوی(Islamic Age) دونوں میں کم عمرکی شادی کے متعدد واقعات کا تذکرہ ملتا ہے ۔

تیسری بات یہ کہ بلوغت کی کوئی حد مقرّر نہیں کی جاسکتی ۔جسمانی نشوونما ، غذائیت ، آب و ہوا ، خاندان اور دیگر چیزیں اس پر اثرانداز ہوتی ہیں ۔ سرد ممالک (Cold countries) میں آٹھ نو برس کی عمر میں لڑکیوں کے یہاں ولادت کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ پھر گرم ممالک(warm country) میں لڑکی کے جلد بالغ ہوجانے کو مستبعد نہیں قرار دیا جاسکتا ۔

کم سنی کی شادی روکنے کے لیے ملک میں پچھلے برسوں میں متعدد قوانین بنائے گئے ہیں اور ان میں بہتری لانے کے لیے ترمیمات کی گئی ہیں ، لیکن جیسا کہ سروے رپورٹوں سے ظاہر ہے ، اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے اور قوانین کی خلاف ورزی پر سزاؤں کے تذکرہ اور نفاذ کے باوجود مختلف سماج میں اس کا معمول جاری ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ صرف قانون بناکر کم عمر کی شادی پر روک نہیں لگائی جا سکتی ۔

بہتر یہ ہے کہ بلوغت (Puberty) سے قبل شادی کی حوصلہ شکنی کی جائے ، لیکن بلوغت کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کو قانونی طور پر شادی کی اجازت ہونی چاہیے ۔ اگر بلوغت کے بعد بھی شادی پر پابندی عائد کی جائے گی اور اس کے لیے قانون بنایا جائے گا تو اس سے اس پر روک تو نہیں لگے گی ، البتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بغیر شادی کے جنسی تعلقات کی طرف مائل ہوں گے ۔ اس کے نتیجے میں سماج میں جو فساد برپا ہوگا وہ کم سنی کی شادی کے نقصان سے کہیں بڑھ کر ہوگا ۔

ملک کے دستور میں اقلیتوں (Minorities) کو ان کے پرسنل لاز کے مطابق عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ یہ آزادی مسلمانوں کو بھی حاصل ہے ۔شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937ء عائلی معاملات میں ان کے حقوق کا تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ اس لیے کم سنی کی شادی کی ممانعت کے سلسلے میں بننے والے کسی قانون سے مسلمانوں کو استثناحاصل ہونا چاہیے ۔ اسلامی تعلیمات کی روٗ سے شادی بلوغت کے بعد پسندیدہ ہے ، بلوغت سے قبل ناگزیر مصالح کے تحت جائز تو ہے ، لیکن مستحسن نہیں ہے ۔ اس تعلق سے اگر لوگوں میں بیداری لانے کی ضرورت ہوگی تو یہ کام مسلمان علماء اور اسلامی شریعت کے ماہرین انجام دیں گے ۔

[ خلاصہ از مقالہ 'کم سنی کی شادی اور اسلام' ، شائع شدہ : سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ ، اپریل - جون 2023 ]

اس مضمون کو ویڈیو میں سننے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں 👇
https://www.facebook.com/share/v/revVVBJWqwERNcQV/?mibextid=xfxF2i

🌱 *لڑکیوں میں شادی نہ کرنے کا رجحان*🌱(*ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے قلم سے:تلخیص:محمدزاہدسرفراز*)👈🏾 *سوال:         آج...
15/04/2024

🌱 *لڑکیوں میں شادی نہ کرنے کا رجحان*🌱

(*ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے قلم سے:تلخیص:محمدزاہدسرفراز*)

👈🏾 *سوال:
آج کل بہت سی لڑکیوں میں شادی نہ کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے ۔ وہ دیکھتی ہیں کہ بہت سے گھرانوں میں بیویوں پر ظلم کیا جاتا ہے ، انھیں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے ، یہاں تک کہ ان کے ساتھ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے ۔ یہ دیکھ کر وہ آئندہ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں شدید اندیشوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں ۔*
*دوسری طرف ان میں ملازمت کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ اس بنا پر وہ اپنی گزر اوقات کے لیے کسی پر منحصر نہیں رہتیں ۔ چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ ہم اپنی آئندہ زندگی ماں باپ کے گھر گزار لیں گے ، یا اپنا الگ انتظام کرلیں گے ، لیکن شادی نہیں کریں گے ۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا ایسی سوچ درست ہے؟ اگر نہیں تو اس طرح سوچنے والی لڑکیوں کو کیسے سمجھایا جائے؟*

👈🏾 *جواب:
دنیا کا نظام جاری و ساری رہے اور قیامت تک یہاں انسانوں کا وجود باقی رہے ، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’زوجیت‘ کا قانون بنایا ہے ۔ انسانوں کو ہی نہیں ، بلکہ حیوانات اور نباتات کو بھی اس نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے ، تاکہ ان کی نسلیں چلیں ، ان کی تعداد میں اضافہ ہو اور دنیا کی رنگینی قائم رہے ۔ قرآن مجید میں ہے :آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ، جس نے تمھاری اپنی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی (ان ہی کے ہم جنس)جوڑے بنائے اور اس طریقے سے وہ تمھاری نسلیں پھیلاتا ہے۔ (الشوریٰ : 12)*
*دوسری جگہ تمام انسانوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اوران دونوں سے ہی بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘(النساء: 1)*
*اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ قانونِ زوجیت پر عمل پیرا ہوں اور ان کے درمیان توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہے ۔ عمر کی ایک حد تک پہنچنے کے بعد مرد عورت کی طرف کشش محسوس کرتا ہے اور عورت کے اندر مرد کی طرف کھنچاؤ پایا جاتا ہے ۔ اگر اس جذبے کی تسکین صحیح طریقے سے ہو تو انسانیت کا قافلہ سکون و اطمینان کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے ، لیکن اگر اسے صحیح رخ نہ دیا جائے تو سماج فتنہ و فساد سے بھر جاتا ہے ۔*
*اسلامی تعلیمات اس سلسلے میں اعتدال پر مبنی ہیں۔ اسلام ہر انسان کو اپنے جنسی جذبے کی تسکین کا حق دیتا ہے ، لیکن اس کے لیے اس نے رشتۂ ازدواج سے جڑنا لازم قرار دیا ہے ۔ کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کرنا بہت بڑا گناہ اور قابلِ سزا جرم ہے ۔ اسی طرح کسی مسلمان مرد اور عورت کا بغیر کسی عذر کے نکاح نہ کرنا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔‘‘(ابو داؤد)*
*عثمان بن مظعونؓ نے نکاح کیا تھا ، لیکن ازدواجی معاملات میں بے پروا تھے ، اسی لیے ان کی زوجہ بناؤ سنگھار نہیں کرتی تھیں ۔اللہ کے رسول ﷺ کو خبر ہوئی تو انھیں تنبیہ کی اور فرمایا :’’اے عثمان! رہبانیت ہمارے اوپر لازم نہیں کی گئی ہے ۔ کیا تمھارے لیے میری ذات میں اسوہ نہیں ہے؟ اللہ کی قسم ، میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرنے والا ہوں۔‘‘(مسند احمد : 25893)*
*یہ بات درست ہے کہ مردوں کے غلبے والے سماج میں بہت سی خواتین کو عزت و احترام کا مقام حاصل نہیں ہوتا ۔ وہ اپنے بہت سے بنیادی حقوق سے محروم رہتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی ازدواجی زندگی میں انھیں خوشی و مسرت حاصل نہیں ہو پاتی ، ان پر ظلم کیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ بسا اوقات ان کے ساتھ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔ افسوس کہ یہ صورتِ حال بعض مسلم گھرانوں کی بھی ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکیاں اس اندیشے سے نکاح کا ارادہ ہی ترک کردیں ۔*
*اندیشوں پر زندگی نہیں گزاری جاتی ۔اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں زلزلہ نہ آجائے ، پھر بھی ہم گھر میں رہتے ہیں ۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ایک گاڑی دوسری گاڑی سے، ایک بس دوسری بس سے اور ایک ٹرین دوسری ٹرین سے ٹکرا نہ جائے ، پھر بھی ہم سفر کرنا بند نہیں کرتے ۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ دکان دار اشیاءِ خودرو نوش میں ملاوٹ کرتے ہوں ، پھر بھی ہم بازار جانا اور ضرورت کی اشیاء خریدنا موقوف نہیں کرتے۔ اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں ہم اندیشہ ہائے دوٗر دَراز کے باوجود معمول کی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں ۔ پھر نکاح کے معاملے میں یہ سوچ کیوں کہ اندیشوں کی وجہ سے نکاح کا ارادہ ترک کردیا جائے اور مجرّد زندگی کو ترجیح دی جائے ۔*
*نکاح کرنا اللہ تعالیٰ کے اس نظام سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہے جو اس نے کائنات اور انسانیت کے تسلسل کے لیے برپا کیا ہے ۔ نکاح ایک ایسا عمل ہے جس کا انسان کی فطرت تقاضا کرتی ہے اور فطرت سے بغاوت خود انسان کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور سماج بھی فتنہ و فساد سے بھر جاتا ہے ۔ نکاح انبیاء اور خاص طور پر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی سنّت ہے ، جس پر آپ ﷺ نے خود عمل کیا ہے اور اپنی امت کو بھی اس کا حکم دیا ہے ، اس لیے عام حالات میں اس سے سرتابی کسی سچے مومن مرد یا عورت کے شایانِ شان نہیں ہے ۔*
*نکاح کے معاملے میں اندیشوں میں مبتلا ہونے کے بجائے پوری تحقیق و تفتیش کے بعد اس کا اقدام کرنا چاہیے ۔ لڑکیوں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ ان کے لیے دین دار رشتوں کو ترجیح دیں ۔ کوئی رشتہ فائنل کرنے سے قبل ہر پہلو سے پوری تحقیق کر لیں ۔ لڑکیوں پر اپنی مرضی نہ تھوپیں ، بلکہ انھیں بھی شریکِ مشورہ کریں ۔ رشتہ کردینے کے بعد ان سے غافل نہ ہوجائیں ، بلکہ آئندہ بھی ان کے حالات سے باخبر رہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی سرپرستی کریں ۔ اس طرح امید ہے ، لڑکیاں خود کو بے یار و مددگار نہیں محسوس کریں گی ۔

*(ماہنامہ ’’صراط مستقیم‘‘فیصل آباد مارچ 2024 میں شائع ہوا۔بذریعہ ڈاک سالانہ 1500 روپے۔فور کلر پی ڈی ایف فاٸل ہر ماہ فری حاصل کرنے کے لیے جواٸن کیجٸے ۔03336505617۔ایڈیٹر حافظ محمد فہیم ۔)* 🏵️

18/02/2023

نکاح میں لڑکی کی اجازت

محمد رضی الاسلام ندوی

کل مجھے ایک نکاح پڑھانے کا موقع ملا - نکاح کی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ ابھی رجسٹر نکاح کی خانہ پُری نہیں ہوئی ہے - میں نے مشورہ دیا کہ پہلے تمام اندراجات کرکے متعلقہ افراد سے دستخط کروالیے جائیں : دولہا ، دلہن ، دلہن کے والد ، گواہ اول ، گواہ دوم اور مہر کی طے شدہ مقدار بھی درج کردی جائے -

میں نے کہا کہ دلہن کے والد کی موجودگی میں دلہن کے وکیل کی ضرورت نہیں ، لیکن مناسب سمجھیں تو کسی کو بنالیں - کہا گیا کہ جب رجسٹر میں اس کا خانہ ہے تو اسے بھی پُر کرلیا جائے -

تمام دستخط کروالینے کے بعد میں نے خطبۂ نکاح پڑھا - پھر ایجاب و قبول کرانے سے قبل دلہن کے والد سے دریافت کیا : " آپ نے اپنی صاحب زادی سے اجازت لے لی ہے؟ " انھوں نے اثبات میں جواب دیا - میں نے دلہن کا نام ، گواہوں کے نام اور مہر کی تفصیل بتانے کے بعد دولہا سے قبول کروالیا -

نکاح سے فراغت کے بعد ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے : " گواہ لڑکی کے پاس گئے ہی نہیں اور انھوں نے اس کے منھ سے اجازت سنی ہی نہیں ، پھر نکاح کہاں ہوا؟"

میں نے عرض کیا : " لڑکی کے والد صاحب اس مجلس میں موجود ہیں - انھوں نے لڑکی سے اجازت لے لی ہے - ان کی طرف سے ایجاب کافی ہے - اس مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں دولہا نے قبول کیا ہے - یہ کافی ہے -"

انھوں نے فرمایا : " ہماری طرف تو گواہوں کو لڑکی کے پاس لے جایا جاتا ہے اور لڑکی سے بلند آواز سے اجازت لی جاتی ہے ، جسے گواہ سنتے ہیں -"

میں نے عرض کیا : " ہماری طرف تو گواہوں کے ساتھ قاضی بھی لڑکی کے پاس جاتا ہے ، اسے پہلے چھ کلمے پڑھاتا ہے ، پھر اس کی رضامندی لیتا ہے - اس کے بعد نکاح کی مجلس میں آتا ہے تو وہاں بھی پہلے دولہا کو چھ کلمے پڑھاتا ہے ، اس کے بعد خطبۂ نکاح پڑھا کر گواہوں کی موجودگی میں دولہا سے قبول کرواتا ہے - لیکن یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں - جتنا میں نے کیا ہے اتنا کافی ہے - "

سہ روزہ تربیتی قضاء پروگرام بینگلور میں قضاء کورس کے متعلق کلاس ساتھیوں کے تاثرات کا سیشن ختم ہو نے کے بعد کلاس میٹ ساتھ...
14/02/2023

سہ روزہ تربیتی قضاء پروگرام بینگلور میں قضاء کورس کے متعلق کلاس ساتھیوں کے تاثرات کا سیشن ختم ہو نے کے بعد کلاس میٹ ساتھیوں کے ساتھ گروپ فوٹو 15/16/17/2022septembar

14/02/2023
15/01/2023

Assalamualaikum wa Rahmatullahi wa Barakatuh

Address

Pathri

Telephone

+918149818275

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qazi Maulana Harun Maharashtra posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Qazi Maulana Harun Maharashtra:

Share