23/07/2024
*⚖️سوال وجواب⚖️*
🖋️مسئلہ نمبر 1898🖋️
(کتاب القضاء، دارالقضاء کی آن لائن بعض کاروائیاں )
*آن لائن دعوی، رفع الزام، گواہی و فریقین کی شناخت کا حکم*
سوال: گزشتہ دو سالوں سے لاک ڈاؤن کی جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اس نے بعض بالکل الگ نوعیت کے مسائل پیدا کر دیئے ہیں، حکومت نے جسمانی فاصلہ کو ضروری قرار دے دیا ہے، جہاں تعلیمی اداروں میں مشافہۃ تعلیم کو منع کر دیا گیا ہے، اور آن لائن تعلیم ہورہی ہے، عدالتیں بھی آن لائن مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں ، اور آن لائن ہی فیصلے بھی سنارہی ہیں ، اس پس منظر میں درج ذیل امور کے جوابات مطلوب ہیں:
(١) دعوی کے لئے ضروری ہے کہ مدعی ، قاضی یا اس کے نائب کی مجلس میں اپنا مدعا پیش کرے، اگر وہ کہیں اور اپنی شکایت رکھے تو یہ دعوی نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں اگر دار القضاء کے آفس میں قاضی کو یا فریقین کو آنے سے منع کر دیا گیا ہو تو کیا مدعی آن لائن اپنا دعوی پیش کر سکتا ہے، اور اسکو مجلس قضاء میں حاضری تصور کیا جائے گا؟
(۲) یہی سوال رفع الزام سے متعلق بھی ہے کہ کیا مدعی علیہ آن لائن رفع الزام کر سکتا ہے؟
(٣) نیز یہی سوال گواہوں سے متعلق بھی ہے، جیسا کہ معلوم ہے کہ شاہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قاضی کی مجلس میں حاضر ہو کر اپنا بیان دے، تو کیا اس کا آن لائن بیان دینا کافی ہو جائے گا؟
(٤) یہ بھی ضروری ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ اور گواہان کی بہتر طور پر شناخت ہو؛ اس لئے فقہاء نے مدعیہ، مدعی علیہا اور خاتون گواہان کا چہرہ بھی بے دیکھنے کی اجازت دی ہے؛ تاکہ ان کو اچھی طرح پہچان لیا جائے ، تو کیا ویڈیو کال پر مقدمہ کے فریقوں اور گواہوں کو دیکھ لینا کافی ہوگا؟ (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق
قضا کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ لوگوں کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے(1) قضا کی اصل روح اور اس کا مقصد قیام عدل، احیاء حقوق، رفع نزاع و دفع ظلم ہے(2) اسلام میں نظام قضا کی بڑی اہمیت ہے، اس سے مظلوموں کی داد رسی ہوتی ور معاشرے میں امن کا ماحول قائم ہوتا ہے، اسی لیے تمام انبیاء کرام کو یہ مقام عطا فرمایا گیا چنانچہ وہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی عوام کے قاضی بھی ہوتے تھے(3)۔
مجلس قضا یا مجلس قاضی سے مراد وہ جگہ ہوتی ہے جہاں قاضی لوگوں کے معاملات حل کرنے کے لیے بیٹھتا ہوں، چنانچہ جس جگہ بھی فیصلے کے لیے قاضی بیٹھ جائے وہی مجلس قضا بن جائے گی، اس کی کوئی حد بندی نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مقام پر ہی بیٹھے، البتہ جہاں لوگ بسہولت آسکیں وہ جگہ زیادہ مناسب ہے، اسی لیے بعض نے جامع مسجد کو مجلس قاضی کے لیے زیادہ موزوں قرار دیا ہے کہ وہاں لوگوں کو آنے میں اسانی ہوتی ہے، لیکن قاضی اگر اپنے گھر میں بھی بیٹھ کر فیصلہ کرتا ہے تو وہ فیصلہ نافذ ہو جائے گا(4)۔
اسی طرح دعوی کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ حاکم کے سامنے کوئی شخص اپنے حق کا دوسرے شخص سے مطالبہ کرے، چنانچہ دعوی اور رفع الزام دونوں کے لیے فقہائے کرام نے مجلس قضاء کی شرط لگائی ہے(5)۔
اس لئے صورت مسئولہ میں اصل یہ ہے کہ مدعی علیہ دعوی اور شہادت کی سماعت نیز فیصلے کے وقت موجود ہو، اگر مدعی علیہ کو دارالقضاء کی طرف سے عرضی دعوی کے نقل موصول ہو جائے اور اسے طلبی کی نوٹس مل جائے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ حاضر ہو کر دعوی کا اقرار کرے یا انکار، اور بصورت انکار رفع الزام کرے، اگر مدعی علیہ مقدمہ کی اطلاع ملنے کے باوجود حاضری سے گریز کرے تو اسے رفع الزام سے عاجز تصور کرتے ہوئے قاضی مقدمے کی سماعت کرے اور فیصلہ بھی، اور قاضی ایسے مدعی علیہ کی طرف سے جسے حاضر کرنا ممکن نہ ہو کسی ایسے شخص کو اس کی طرف سے اظہار حق کے لیے طلب کرے گا جس کے بارے میں امید ہو کہ وہ مدعی علیہ کے مفادات کی حفاظت کرے گا اسے اصطلاح فقہاء میں وکیل مسخر کہا جاتا ہے(6)۔
مذکورہ سوالات کا تعلق دراصل قضاء علی الغائب سے ہے اور اس کے سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ احناف کے یہاں قضاء الغائب جائز نہیں ہے، البتہ دوسرے فقہاء نے قضاء علی الغائب کو درست اور جائز قرار دیا ہے، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں بھی قضاء علی الغائب جائز ہے، ان کے ہاں مدعی کی حاضری دعوی، شہادت اور فیصلے کے لیے ضروری نہیں ہے(7)
مذکورہ سوال کے سلسلے میں فقہاء کے کلام سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اس باب میں بنیادی امر صاحب حق تک حق کو پہنچانا، مظلوم سے ظلم کو دور کرنا اور اس کے حق کو ہلاکت سے بچانا ہے(8) اگر کہیں حالات میں اس قدر تبدیلی ہو جائے کہ ایک اصول کی پابندی میں حرج اور تعطیل حکم لازم آتا ہو تو اس اصول کو ترک کر دیا جائے گا، اس لیے کہ جب احکام ہی معطل ہو جائیں اور رفع ظلم ہی نہ ہو سکے تو قاضی کے قضا کا کوئی خاص فائدہ ظاہر نہیں ہوگا؛ اس لیے آن لائن کاروائی کے جواز کی طرف اشارہ ضرور ملتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دین میں حرج اور تنگی کو دور کیا گیا ہے، مشہور اصول ہے الحرج مدفوع، اس سلسلے میں فقہاء نے انتہائی احتیاط لیکن پوری فراخ دلی کے ساتھ حالات کا جائزہ لے کر لوگوں کو حرج سے بچایا ہے، اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض دفعہ شاہد اداء شہادت سے عاجز ہوتا ہے اور اس صورت میں التوائے حقوق کا خطرہ ہوتا ہے،اس لیے فقہا نے ان خرابیوں کے باوجود شہادۃ علی الشہادہ کو جائز قرار دیا ہے(9)۔
اس لیے مصالح کے پیش نظر اور حکمت قضا کو بروئے کار لاتے ہوئے جدید مروجہ طریقے جس سے حکومتی سطح پر بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے استعمال کرنا درست ہوگا اور جب کرونا جیسے حالات اور لاک ڈاؤن جیسا ماحول پیدا ہو اور پورا ملک مقفل اور معطل ہو جائے اور کوئی ایسی صورت نہ ہو کہ یہ کاروائی قاضی کے سامنے یا اس کے نائب کے سامنے انجام پا سکے تو پھر آن لائن کاروائی کی گنجائش ہوگی، البتہ ضروری ہوگا کہ تمام ضروری احتیاط اور اہم تدابیر اختیار کر لی جائیں، تاکہ اشتباہ و تلبیس کا اندیشہ کم سے کم ہوجائے، ان احتیاطی تدابیر میں مذکورہ ذیل چیزیں شامل ہیں:
(١) آن لائن دعوی بذریعہ ویڈیو کالنگ ہو، آڈیو کالنگ نہ ہو؛ کیونکہ اس میں نسبتا زیادہ شبہ کی گنجائش ہوتی ہے۔
(٢) دوران سماعت اور دوران دعوی قاضی اور فریقین کے کیمرے آن ہوں، تاکہ حرکات و سکنات سے تمام لوگ پوری طرح واقف رہیں۔
(٣) پوری کاروائی ریکارڈ کی جائے۔
(٤) حسب معمول فریقین کی باتیں قلم بند بھی کی جائیں۔
(٥) فریقین اور گواہوں کی تحقیق و تائید کے لیے ان کی آئی ڈی یعنی شناختی کارڈ کی تفتیش بھی کی جائے تاکہ دھوکہ اور فریب سے بچا جا سکے۔
(٦) آن لائن بھیجی ہوئی اور موصول تحریرات کی پرنٹ لے کر فائل میں شامل کی جائیں۔
(٧) یونیکوڈ یعنی براہ راست میل واٹس ایپ ٹیلی گرام وغیرہ پر الفاظ نہ لکھے جائیں، کیونکہ یہ کام کوئی دوسرا آدمی بھی اس کے اکاؤنٹ اور اس کے نام پر کر سکتا ہے، نیز ایسی صورت میں دستخط نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا باتوں کی رعایت کرتے ہوئے نہایت سخت حالات میں کہ جب لوگوں کا آنا جانا بالکل مشکل یا ناممکن ہو تو آن لائن مدعی کا اپنا دعوی پیش کرنا اور مدعی علیہ کا آن لائن رفع الزام کرنا نیز گواہوں کا آن لائن بیان دینا درست ہوگا، اسی طرح ویڈیو کال پر مقدمے کے فریقین اور گواہوں کو دیکھ لینا بھی کافی ہو گا، علامہ شامی کی بعض عبارات سے اس پر روشنی پڑتی ہے ۔ فقط والسلام
📚والدليل على ما قلنا📚
(1)” القضاء هو الحكم بين الناس بالحق ( بدائع الصنائع ۸۳)
” واللہ یقضی بالحق “ (سورۃ غافر : ۲۰)
"إن ربك يقضى بينهم بحكمة، وهو العزيز العليم“ (سوره نمل: ۷۸) ۔
(2) وأما حكمته فرفع التهارج ورد النوائب وقمع الظالم ونصر المظلوم وقطع الخصومات والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر “ (معين الحکام ١٧)
(3) ” وأن احكم بينهم بما أنزل الله ولا تتبع أهواءهم (سوره مائده: ۴۹) ۔
(4) قال الخصاف فى أدب القاضى، قال أبو حنيفة : وينبغي للقاضي أن يجلس للحكم في المسجد الجامع وبين المغني، فقال لأنه أشهر المجالس ومعناه أن في المصر الغرباء وأهل البلدة، ينبغى أن يختار للجلوس موضعا هو أشهر المواضع، حتى لا يخفى على أحد مجلسه والمسجد الجامع في كل موضع أشهر المواضع وإن جلس في مسجد حيه فلا بأس به، هكذا روى عن بعض السلف، أنهم يجلسون في مسجد حيهم، وكذلك إن جلس في بيته لا بأس به (المحيط البرہانی ۱۹/۸، الدر المختار علی ہامش رد المحتار ۳۷۲/۵)۔
(5) قول يقصد به الإنسان إيجاب حق على غيره، وفي عرف الفقهاء : مطالبة حق فى مجلس من له الخلاص عند ثبوته ( فتح القدير ٧/٦ ، کتاب الدعوى ) ۔
” الدعوى إضافة الشئى إلى نفسه وضعا، وإضافة الشئى إلى نفسه مع مساس حاجته إليهآ شرعاً ( معين الحكام / ۵۳) ۔
"الدعوى الصحيحة أن يدعى شيئاً معلوماً على خصم حاضر في مجلس الحكم دعوى تلزم الخصم أمر أ من الأمور ( معين الحكام / ۱۶۲) ۔
: ” إِنَّمَا كَانَ قَوْلُ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُوْلُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ (النساء: (٥) ۔
(6) " ومنها حضرة الخصم فلا تسمع الدعوى ولا البيئة إلا على حضرة الخصم فلا تسمع الدعوى ولا البيئة إلا على خصم حاضر “ (بدائع الصنائع ۳۱۲/۸) ۔
(7) " وهذا عندنا و عند الشافعي حضرة المدعى عليه ليست بشرط لسماع الدعوى و البيئة و القضاء فيجوز القضاء على الغائب عنده وعندنا لا يجوز ( بدائع الصنائع ۳۱۲/۸)
و شرطها أى شرط جواز الدعوى مجلس القضاء و حضور خصم فلا يقضى على الغائب (در مختار)
فلا يقضى على الغائب أى بالبينة سواء كان غائبا وقت الشهادة أو بعدها و بعد التزكية وسواء كان غائباً عن المجلس أو عن البلد ( قرة عيون الأخبار تكملة رد المحتار ۳۷۸/۳) ۔
(8) " وأما حكمته فرفع التهارج ورد النوائب وقمع الظالم ونصر المظلوم وقطع الخصومات والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر “ (معين الحکام ١٧)
(9) أما التعريف فهو إخبار صدق لإثبات حق بلفظ الشهادة فى مجلس القضاء هكذا في فتح القدیر“ (فتاوی ہند یہ ۴۵۰/۳) ۔
الشهادة (هي) لغة: خبر قاطع، وشرعاً ( إخبار صدق لإثبات حق) فتح ( بلفظ الشهادة فى مجلس القاضی) (رد المحتار، کتاب الشهادات ۱۷۲/۸)
الشهادة : وهى فى اللغة عبارة عن الإخبار بصحة الشئى عن مشاهدة وعيان ولهذا قالوا : إنها مشقة من المشاهدة التي تنبئي عن المعاينة لأن السبب المطلق للأداء المعاينة ، وقيل : هي مشتقة من الشهود بمعنى الحضور، لأن الشاهد يحضر مجلس القضاء للأداء فسمى الحاضر شاهداً وأداءه شهادة، وهي في الشريعة عبارة عن إخبار بصدق مشروط فيه مجلس القضاء و لفظ الشهادة ( كفاية تحت فتح القدیر، کتاب الشهادات ۳۳۹/۷)ہ
الشهادة على الشهادة جائزة في كل حق لا يسقط بالشبهة وهذا استحسان بشرط الحاجة إليها إذ شاهد الأصل قد يعجز عن أدا شهادة لبعض العوارض فلو لم يجز الشهادة على الشهادة أدى إلى التواء الحقوق (ہدایہ آخرین: ۱۵۴)
(10) فالظاهر عندى : أن يتأمل في الوقائع ، ويحتاط ، ويلاحظ الحرج، والضرورات فيفتى بحسبها جوازا أو فسادًا ، مثلا لو طلق امرأته عند العدل فغاب عن البلد و لا يعرف مكانه أو يعرف ولكن يعجز عن إحضاره أو أن تسافر إليه هى، أو وكيلها لبعده أو لمانع آخر وكذا المديون لوغاب وله نقد فى البلد أو نحو ذلك ، ففى مثل هذا لوبرهن على الغائب غلب على ظن القاضي أنه حق لا تزوير ولا حيلة فيه، فينبغي أن يحكم عليه وله، وكذا للمفتى أن يفتى بجوازه دفعًا للحرج والضرورات، وصيانة للحقوق عن الضياع، مع أنه مجتهد فيه ذهب إليه الأئمة الثلاثة وفيه روايتان عن أصحابنا (شامی: کتاب القضاء ، ۱۰۷/۸، ط: زکریا)
*كتبه العبد محمد زبير الندوي*
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مؤرخہ 24/11/1443
رابطہ 9029189288
*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*